Pakistan Government PTA Going to block SIMS for corona Vaccine
کووڈ 19: پنجاب میں کورونا ویکسین نہ لگوانے والوں کے سم کارڈ بند کرنے کی نوبت کیوں آئی؟
پاکستان کے صوبہ پنجاب میں حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ایسے افراد جو کورونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین نہیں لگوائیں گے ان کے موبائل فون کی سم بند کر دی جائے گی۔
صوبے میں زیادہ سے زیادہ افراد کو ویکسین لگانے کا ہدف حاصل کرنے کے لیے جن دیگر تجاویز پر غور کیا جا رہا ہے ان میں ویکسین نہ لگوانے والے افراد کے سرکاری دفاتر، شاپنگ مالز، پارکوں اور ریستورانوں میں داخلے پر پابندی شامل ہے۔
تاہم پہلے مرحلے میں فون کی سم کو بند کرنے کی تجویز پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ جمعرات کے روز صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی زیرِ صدارت ہونے والے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا گیا تھا۔
صوبہ پنجاب کے محمکہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اس فیصلے کا باقاعدہ اطلاق 30 جون کے بعد ہو گا۔
محکمہ صحت کے اہلکار کے مطابق یہ تجاویز زیادہ کورونا کے حوالے سے قائم کیے گئے خصوصی وفاقی ادارے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کی طرف سے صوبائی حکومت کو بھجوائی گئی تھیں۔
’ایسے اقدامات کا مقصد حکومت کی طرف سے طے کیے گئے اس ہدف کو پورا کرنا ہے جس کے مطابق 70 فیصد کے لگ بھگ آبادی کو رواں سال کے آخر تک کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لگا دی جائے گی۔‘
اس ہدف کے مطابق صوبہ پنجاب میں پانچ سے سات کروڑ افراد کو ویکسین لگانا ضروری ہو گا جو ملک میں کسی بھی دوسرے صوبے سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں لوگوں کو ویکسین لگانے کی رفتار ابتدا ہی سے سست روی کا شکار تھی جس کی بڑی وجہ ویکسین کی عدم دستیابی بتائی جاتی تھی۔
تاہم حکومت کا دعوٰی ہے کہ ملکی ضرورت کے مطابق وافر تعداد میں ویکسین حاصل کرنے کا بندوبست کر لیا گیا ہے۔ این سی او سی کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 95 لاکھ سے زائد ویکسین کی خوراکیں لگائی جا چکی ہیں تاہم مکمل طور پر ویکسین لگوانے والے افراد کی تعداد 25 لاکھ 40 ہزار سے زیادہ ہے۔
ایسے میں اگر لوگوں کو ویکسین لگانے کی رفتار تسلی بخش ہے تو پابندیاں عائد کرنے اور موبائل فون کی سم بند کرنے جیسے اقدامات کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور سب سے بڑی بات یہ کہ کیا ایسے اقدامات کامیاب ہو سکتے ہیں؟
Watch Video Here
کیسے پتہ چلے گا کہ کس کا سم کارڈ بند کیا جائے؟
پاکستان میں تمام تر ویکسین لگوانے والے افراد کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے شناختی کارڈ نمبر کے ذریعے ویکسین کے لیے اپنا اندراج کروائیں۔ اسی نمبر کے جواب میں انھیں ویکسین کوڈ بھیجا جاتا ہے۔
محکمہ صحت کے ترجمان کے مطابق ویکسین لگوانے والے افراد کے اعداد و شمار کو شہریوں کی رجسٹریشن کے قومی ادارے نادرا کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔ 'جو بھی شخص ویکسین کی دونوں خوراکیں لگوا لیتا ہے اس کے شناختی کارڈ کے سامنے اندراج ہو جاتا ہے کہ وہ ویکسین لگوا چکا ہے۔'
یہ اعداد و شمار نادرا کے ریکارڈ میں اپ ڈیٹ ہوتے رہتے ہیں اس طرح نادرا کے ریکارڈ کی مدد سے ایسے افراد کی نشاندہی آسان ہو گی جنھوں نے 30 جون کے بعد ویکسین نہیں لگوا رکھی ہو گی۔
کس کی سم اور کیسے بند کی جائے گی؟
محمکہ صحت کے حکام کے مطابق ایسے افراد جنھوں نے ویکسین نہیں لگوائی ہو گی اور انھوں نے ویکسین کے لیے اندراج کروانے کے لیے پیغام بھی نہیں بھجوایا ہو گا، پہلے مرحلے میں انھیں انتباہ کیا جائے گا۔
’وہ افراد جنھوں نے ابھی تک رجسٹریشن کے لیے مقررہ نمبر 1166 پر اپنا شناختی کارڈ ہی نہیں بھیج رکھا انھیں انھیں انتباہی پیغامات بھیجے جائیں گے کہ وہ رجسٹریشن کروائیں اور ویکسین لگوائیں۔‘
اس کے بعد انھیں ایسا کرنے کا وقت دیا جائے گا۔ اس کے اگلے مرحلے میں وہ افراد جو انتباہ کے باوجود بھی ویکسین نہیں لگوائیں گے ان کے شناختی کارڈ سے منسلک سم کارڈ بلاک کر دیا جائے گا۔ سم اسی صورت میں دوبارہ بحال ہو پائے گی جب صارف ویکسین لگوا لے گا۔
کیا پنجاب میں لوگ ویکسین نہیں لگوا رہے؟
محمکہ صحت پنجاب کے مطابق صوبے تاحال پچاس لاکھ سے زائد افراد کو ویکسین لگائی جا چکی ہے تاہم ایسے افراد جن کو ویکسین کی دوسری خوراک نہیں مل پائی یا وہ مکمل طور پر ویکسین نہیں لگوا سکے، ان کی تعداد 40 لاکھ سے زیادہ ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق مکمل طور پر ویکسین لگوانے والے افراد کی تعداد تاحال 10 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ تاہم محمکہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ 40 لاکھ افراد جنھیں ویکسین کی دوسری خوراک نہیں ملی ’ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جن کی دوسری خوراک کا وقت ابھی نہیں آیا۔‘
ن کا کہنا تھا کہ ایسے افراد جو دانستاً دوسری خوراک لگوانے کے لیے نہیں آئے ان کی تعداد تین سے چار لاکھ کے قریب ہے۔ حکومت نے ابتدا میں 70 سال کے افراد سے ویکسین لگانے کا آغاز کیا تھا جبکہ حال ہی میں 18 سال سے زائد عمر کے افراد کو بھی ویکسین لگوانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
محمکہ صحت کے حکام کا دعوٰی ہے کہ صوبے میں ویکسین لگانے کی رفتار تسلی بخش ہے۔ تو ایسے میں باپندیوں اور سم بند کرنے جیسے طریقہ کار کو اپنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
محمکہ صحت کے ترجمان کے مطابق اس کا مقصد سال کے آخر تک ویکسین کا ہدف حاصل کرنا ہے۔
تاحال سرکاری سطح پر کسی ایسے سروے کی نشاندہی نہیں کی گئی جس سے یہ معلوم ہو پائے کہ صوبہ پنجاب میں یا پاکستان میں کتنے لوگ ویکسین لگوانے کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ اسی طرح یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کی ویکسین نہ لگوانے کی وجوہات کیا ہو سکتی ہیں۔
تاہم حکومت کے لیے اس کو جانچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ صوبے کے ہسپتالوں میں آنے والے کورونا کے مریضوں کی عمریں اور ان کی بیماری کی نوعیت کو جانچا جائے۔
0 Comments